اسد ضیاء
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں تیزی سے درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور موسموں میں بھی کئ حد تک تبدیلی آرہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی پی نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق بڑھتی ہوئی درجہ حرات اور موسمیاتی تبدیلی نہ صرف ملک کی سلامتی بلکہ حیاتیاتی تناوع کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
محمد داود خان جو کہ ایک صحافی ہے اور پاکستان میں موحولیات اور حیاتیاتی تنوع پر کئی سالوں سے کام کر رہا ہے کہتے ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بالآخر کسی حد تک ایک ایسا مسئلہ بنتے جا رہے ہیں جس پر قومی سطح پر بحث کی جا رہی ہے لیکن حیاتیاتی تنوع کے نقصانات کے اثرات پر قومی سطح پر اب بھی بات نہیں ہو رہی ہے جو کہ آنے والے وقتوں میں ایک بہت بڑا مسلہ بن سکتاہے۔
داود خان کہتے ہے کہ ملک میں حیاتیاتی تنوع پہلے ہی سے ایک اہم مسائل تھا لیکن اب جنگلات میں آگ لگانے کے واقیات سے مزید حالات خراب ہو رہے ہیں، تاہم حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی عمل دارامد نہیں ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس سال موسم گرما کے دوران صرف خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں جنگلات اور جھاڑیوں میں آک لگنے کے۲۱۰ واقعات رپورٹ ہوئیں جس میں نہ صرف تین قیمتی جانیں گئے بلکہ ہزاروں کے تعداد میں قیمتی درخت، پودے، پرندے ، گونسلے اور پرندوں کے انڈے جل گئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 26 فیصد سے زائد کیسز میں انسان ملوث تھے، جب کہ 27 ایف آئی آر درج کی گئیں۔ تاہم ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ واقعات میں آگ لگنے کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا۔
محمد داود خان کے مطابق پاکستان میں صوبائی سطح پر حیاتیاتی تنوع کے حفاظت کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے جو جنگلات کی حفاظت کے لئے پروقت اقدامات کریں۔
عالمی حیاتیاتی تنوع کا فریم ورک کی چوتھی اجلاس نائروبی کینا میں ۲۱ سے ۲۶ جون ۲۰۲۲ کو ہوئی جس میں تقریباً ۲۰۰ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، لکین اس اجلاس میں پاکستان سے حکومتی یا کسی این جی اوز کے نمائندوں نے شرکت نہں کی جس سے یہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کے مسائل اور اس مضوع میں کوئی دلجسپی ہی نہں لے رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عالمی حیاتیاتی تنوع کی ایکزیکٹویو سیکرٹری الزبتھ ماروما مریما نے کہا کہ پاکستان ہمارا بہت ایکٹویو رکن ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ پاکستان سے کیوں اس کانفرنس میں شریک نہں ہوئے۔ انھون نے مزید کہا کہ کووڈ ۱۹ کی وجہ سے بھی بہت ممالک کے ڈلیگیشن شریک نہں ہوئیں شائد یہی وجہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں سب سے بڑا فصیلہ یہ ہوا کہ عالمی حیاتیاتی تنوع کا ائندہ اجلاس ۵ دسمبر سے ۱۷ دسمبر ۲۰۲۲ کینڈا مونٹریال میں ہوگا جس میں تمام ممالک سے نمائندے شرکت کرئنگے۔
یاد رہیں کہ عالمی حیاتیاتی تنوع کا یہ اجلاس چین میں منقد ہونا تھا لکین کرونا کی بڑھتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے اس کانفرنس کو کنیڈا منتقل کیا گیا جبکہ چین اس کی صدرات کے فرائض انجام دیں رہے ہیں۔
علمی حتیاتی تنوع کانفرس میں پاکستان سے شریک صحافی مراد خان جو کہ ارتھ جرنالزم نیٹ ورک کے فیلو ہے کہتے ہے کہ اس اجلاس میں تقریباً ۲۰۰ کے قریب ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جس میں حکومتی نمائندے اور این جی اوز کے نمائندے شامل ہیں لیکن پاکستان سے کوئی بھی شریک نہیں ہوئیں جو کہ ہمارے ملک کے لیے ایک خوش ائند بات نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس عالمی فورم پر تمام ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے ملک کی مسائل اور جاری کاموں پر بات کی اور ان کو مزید بہتر بنانے کے لیے عالمی فورم سے مطالبات کی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پے مجھے معلوم ہوا کہ پوری دنیا میں حیاتیاتی تنوع پر کتنا کام ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کے لیے کسی سطح پر بھی کام نہں ہو رہا ہے۔
مراد خان نے کہا کہ حیاتیاتی ہماری زندگی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ زندگی کے سب سے اہم تین ضروریات خوراک، پانی اور اکسجن ہم حیاتیاتی تنوع سے حاصل کرتے ہیں۔ ہہاں پر سائندانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے حیاتیاتی تنوع کی حفاطت کے لے بروقت انتظامات نہیں کیے تو مستقبل میں ہمیں نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑھے گا بلکہ ہمیں اکسیجن، خوراک اور صاف پانی کے حصول کے لیے مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس لیے حکومت اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ حیاتیاتی تنوع کی بقا کے لیے بروقت انتظامات کریں تاکہ ہم اپنے انے والے نسلوں کو موسمی تبدیلی کے سنگین اثرات سے بچا سکے۔
محمد داود خان کے مطابق حیاتیاتی تناوع کا ایک بنیادی وجہ گھریلو مویشیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے، جو ہر سال دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔” مویشیوں کے چرنے کے ساتھ ساتھ چارہ اگانے کے لیے زمین کے لیے جنگلات کا صفایا کیا جاتا ہے۔
انھون نے کہا کہ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جب کہ ساحلی علاقے، جن میں مینگروو کے جنگلات کے بھرپور ذخائر موجود ہیں، بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
داود نے کہا کہ پاکستان کے صرف ۷ فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، اور یہ تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ایندھن کی لکڑی اور لکڑی کے استعمال کی بڑھتی ہوئی شرحوں کے ساتھ ساتھ گھریلو مویشیوں کے لیے زمین کی ضرورت اس کمی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
پاکستان کے وزارت مسمیاتی تبدیلی کے ایک نمائندے کے مطابق قومی حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے ملک کے صوبائی سطح پر جنگلات، پانی، ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن اف نیچر ماہریں کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔
انھون نے کہا کہ ہمیں حیاتیاتی تنوع پر براہ راست دباؤ کم کرنا چاہیے اور پائیدار استعمال کو فروغ دینا چاہیے۔ حیاتیاتی تنوع کا نقصان بہت تیز رفتاری سے ہو رہا ہے اور تمام صوبائی جنگلات اور جنگلی حیات کے محکموں کو اسے ٹھیک کرنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہں ہے کہ حیاتیاتی تنوع پر حکومتی سطح پر بات نیہں ہو ریی ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات پالیسی سازوں اور میڈیا دونوں کی توجہ مبذول کر رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے اثرات بھی زیر بحث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مد میں ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم مقامی سطح پر اس کے لیے کیمٹیاں بنائیے اور لوگوں کی اگاہی کے لیے کام کریں جو بہت ضروری ہے،
قمر نسیم جو کہ سول سوسائٹی کا رکن ہے اور ماحولیات، موسومی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع سے متعلق کام کر رہا ہے کہتے ہیں کہ اس وقت جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مقامی کمیونٹیز (شہری اور دیہی دونوں) کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور حیاتیاتی تنوع کے نقصانات کے بارے میں اگاہی دی جا سکے۔
وہ مزید کہتے ہے کہ حکومت کو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی پالیسیوں کو شہریوں میں بیداری بڑھانے کو ترجیح دینی چاہیے اور مقامی لوکوں اور خاص طور پر عورتوں میں حیاتیاتی تنوع کے بارے میں اگاہی دینی چاہیے تاکہ ائندہ کے لیے ہم کم از کم اپنی نسلوں کے ایک سازگار ماحول کی فراہمی یقنی بنایا جاسکے۔
ابوبکر جس کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن عالمی حیاتیاتی تنوع کانفرنس نائروبی کینیا میں ناوڈرک کونسل اف منسٹرز کی نمائندگی کر رہے تھے کہتے ہیں کہ مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ پاکستان سے اس عالمی کانفرس میں کوئی شریک نہں ہوئے۔
ابوبکر نے کہا کہ پاکستان کی آبادی میں یوتھ کی بہت بڑی تعداد ہے اور اگر ان کو موقعہ دی جائے تو ان کا کردار حیاتیاتی تنوع کے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو ستکی ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حیاتیاتی تنوع کے حفاظت میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ مستقبل میں کسی کی بڑی مثبت سے بچ سکے۔
_”یہ کہانی انٹرنیوز کے ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کی 2022 UNCBD COP 15 رپورٹنگ فیلوشپ کے حصے کے طور پر تیار کی گئی تھی۔”